Posts

Showing posts from August, 2024

کلام. محمد اویس رضا قادری (عبید رضا)

 آقا تمھارے در پر آنا اچھا لگتا ہے آنکھ میں خاکِ طیبہ لگانا اچھا لگتا ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں حالِ دل اپنا رو رو کر آقا کو سنانا اچھا لگتا ہے بیٹھ کے جنت کی کیاری میں روتی آنکھوں کو چھپ چھپ کر منبر پے اُٹھانا اچھا لگتا ہے بیٹھ کےعاشق کی محفل میں نعتیں پڑھ پڑھ کر یاد میں تیری رونا رلانا اچھا لگتا ہے

کلام. مظفر وارثی

 وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک ​ تیری خوشبو، میری چادر تیرے تیور، میرا زیور تیرا شیوہ، میرا مسلک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک میری منزل، تیری آہٹ میرا سدرہ، تیری چوکھٹ تیری گاگر، میرا ساگر تیرا صحرا ، میرا پنگھٹ میں ازل سے ترا پیاسا نہ ہو خالی میرا کاسہ تیرے واری ترا بالک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک تیری مدحت، میری بولی تُو خزانہ، میں ہوں جھولی تیرا سایہ، میری کایا تیرا جھونکا، میری ڈولی تیرا رستہ، میرا ہادی تیری یادیں، میری وادی تیرے ذرّے، میرے دیپک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک تیرے دم سے دلِ بینا کبھی فاراں، کبھی سینا نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر میرا مرنا میرا جینا یہ زمیں بھی ہو فلک سی نظر آئے جو دھنک سی تیرے در سے میری جاں تک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک میں ہوں قطرہ، تُو سمندر میری دنیا تیرے اندر سگِ داتا میرا ناتا نہ ولی ہوں، نہ قلندر تیرے سائے میں کھڑے ہیں میرے جیسے تو بڑے ہیں کوئی تجھ سا نہیں بے شک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک میں ادھورا، تو مکمل میں شکستہ، تو مسلسل میں سخنور، تو پیمبر میرا مکتب، ترا ایک پل تیری جنبش، میرا خامہ تیرا نقطہ، میرا نامہ کیا تُو نے مجھے زیرک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک میری سوچیں ہیں سوالی میرا ل...

کلام. حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ

 الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو​ نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے هر جائی هو اندر بوٹی مشک مچایا جان پهلن تے آئی هو جیوے مرشد کامل باہو جنہے ایه بوٹی لائی هو ایہـ تن میرا چشمه هووئے میں مرشد ویکھ نه رجاں هو لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشمه اک کهولاں اک کجاں هو اتناں ڈٹھیاں صبر نه آوے ہور کدے ول بجهاں هو مرشد اے دیدار باهو مینوں لکھ کروڑاں حجاں هو سن فریاد پیراں دیا پیرا میری عرض سنیں کن دھر کے ہُو بیڑا اڑیا میرا وچ کپرا ندے جتھے مچھ نہ بہندے ڈر کے ہُو شاہ جیلانی محبوب سبحانی میری خبر لیو جھٹ کر کے ہُو پیر جنہاندے میراں باہو، اوہ کدھی لگدے ترکے ہُو بغداد شہر دی کی اے نشانی اچیاں لمیاں چیراں هو تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں هو اینہاں لیراں دی میں کفنی پا کے رلساں سنگ فقیراں هو بغداد شہر دے ٹکرے منگساں کرساں میراں میراں هو تسبیح پھری تے دل نہیں پھریا ، کیہ لینا تسبیح پھڑ کے ہُو علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا،کیہ لینا علم نوں پڑھ کے ہُو چلے کٹے تے کجھ نہ کھٹیا، کیہ لینا چلیاں وڑ کے ہُو جاگ بناں ددھ جمدے ناہیں باہو، بھانویں لال ہوون کڑھ کڑھ کے ہُو

نوٹ.

 آپ اپنی پسندیدہ نعت کا اظہار کمنٹ میں کریں  میں ضرور آپ کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کروںگا          انشاءاللہ الکریم.. 

کلام. بیدم شاہ وارثی

 بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ

قومی ترانہ. حفیظ جالندھری

 پاک سر زمین شاد باد ۔۔۔ کشور حسین شاد باد تونشان عزم عالی شان ۔۔۔ ارض پاکستان مرکز یقین شاد باد۔ پاک سر زمین کا نظام ۔۔۔ قوت اخوت عوام قوم ملک سلطنت ۔۔۔ پائندہ تابندہ باد شاد باد منزل مراد۔ پرچم ستارہ و ہلال ۔۔۔ رہبر ترقی و کمال ترجمان ماضی شان حال ۔۔۔ جان استقبال سایہء خدائے ذو الجلال۔

مدنی سہرا. امیر اہلسنت

 آج (اس جگہ دولہے کا نام لیں)  فضلِ رب سے ہے دولھا بنا خوشنما پھولوں کا اس کے سر پہ ہے سہرا سجا اس کی شادی خانہ آبادی ہو ربِّ مصطَفٰے از طفیلِ غوث و خواجہ ازپئے احمدرضا ان کی زَوجہ یاخدا کرتی رہے پردہ سدا از طفیلِ حضرتِ عثماں غنی باحیا تُو سدا رکھنا سلامت ان کا جوڑا کردگار ان کو جھگڑوں سے بچانا از طفیلِ چار یار ان کو خو شیاں دو جہا ں میں تُو عطا کر کبریا کچھ نہ چھائے ان پہ غم کی رنج کی کالی گھٹا تو نحوست سے انہیں فیشن کی اے مولیٰ بچا سنتوں پر یہ عمل کرتے رہیں یارب سَدا نیک اولاد ان کو مولیٰ عافیت سے ہو عطا واسِطہ یارب مدینے کی مبارک خاک کا یاالٰہی جب تلک دونوں یہاں جِیتے رہیں  سنّتوں کی خوب خدمت یہ سدا کرتے رہیں  اس طرح مہکا کرے یہ گھر کا گھر پیارے خدا پھول مہکا کرتے ہیں جیسے مدینے کے سدا یاالٰہی! دے سعادت ان کو حج کی باربار باربار ان کو دِکھا میٹھے محمد کا دِیار ہو بقیعِ پاک میں دونوں کو مدفن بھی عطا سبز گنبد کا تجھے دیتا ہوں مولیٰ واسِطہ یہ میاں بیوی رہیں جنّت میں یکجا اے خدا یاالٰہی تجھ سے ہے عطارِؔ عاجِز کی دعا

درود تاج. سیدانلامام الحبیب شیخ ابوبکر

 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ سَيِّدِنَا وَمَوْلانَا مُحَمَّدٍ ❁ صَاحِبِ التَّاجِ وَالْمِعْرَاجِ وَالْبُرَاقِ وَالْعَلَمِ ❁ دَافِعِ الْبَلآءِ وَالْوَبَآءِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالْأَلَمَ ❁  اِسْمُهُ مَكْتُوبٌ مَرْفُوعٌ مَشْفُوعٌ مَنْقُوشٌ فِي اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ ❁  سَيِّدِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ ❁  جِسْمُهُ مُقَدَّسٌ مُعَطَّرٌ مُطَهَّرٌ مُنَوَّرٌ فِي الْبَيْتِ وَالْحَرَمِ ❁  شَمْسِ الضُّحَى ❁ بَدْرِ الدُّجَى ❁  صَدْرِ الْعُلَى ❁ نُورِ الْهُدَى ❁  كَهْفِ الْوَرَى ❁  مِصْبَاحِ الظُّلَمِ ❁ جَمِيلِ الشِّيَمِ ❁  شَفِيعِ الْاُمَمِ ❁ صَاحِبِ الْجُودِ وَالْكَرَمِ ❁  وَاللهُ عَاصِمُهُ ❁ وَجِبْرِيلُ خَادِمُهُ ❁  وَالْبُرَاقُ مَرْكَبُهُ ❁ وَالْمِعْرَاجُ سَفَرُهُ ❁  وَسِدْرَتُ الْمُنْتَهَى مَقَامُهُ ❁  وَقَابَ قَوْسَيْنِ مَطْلُوبُهُ ❁  وَالْمَطْلُوبُ مَقْصُودُهُ ❁ وَالْمَقْصُودُ مَوْجُودُهُ ❁  سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ ❁ خَاتِمِ النَّبِيِّينَ ❁  شَفِيعِ الْمُذْنِبِينَ ❁ أَنِيسِ الْغَرِيبِينَ ❁  رَحْمَةٍ لِلْعَالَمِينَ...

کلام. اوصاف علی.

 یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا زہرہ پاک کے صدقے ہم کو طیبہ میں بلانا سج گئی ہے میلاد کی محفل کیا ہے خوب نظارہ کیف ومستی میں ڈوبا ہے دیکھو عالم سارا ڈھونڈھ رہی ہے آپ کی رحمت بخشش کا بہانا بے سایہ ہے لیکن دو جگ پر ہے آپ کا سایہ عرشِ مُعلّی بنا محلہ دید کو رب نے بلایا حشر تلک نہ ہو گا کسی کا ایسا آنا جانا آپ کے در کا میں ہوں بھکاری آپ ہیں میرے داتا سارے رشتے ناطوں سے ہے پیارا اپنا ناطہ آپ تو ہیں آقا ہے جن کو سب کی لاج نبھانا نسبت کا فیضان ہے دیکھو خادمِ غوث جلی ہوں کرتا ہے مجھ پہ ناز زمانہ میں اوصاف علی ہوں آپ کی آل کے در کا سگ ہوں سائل ہوں پُرانا

حمد. صبیح الدین صبیح رحمانی.

 کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر دیکھوں تو دیکھے جاؤں برابر، اللہ اکبر اللہ اکبر حمد خدا سے تر ہیں زبانیں، کانوں میں رس گھولتی ہیں اذانیں بس اک صدا آ رہی ہے برابر، اللہ اکبر اللہ اکبر تیرے حرم کی کیا بات مولٰی، تیرے کرم کی کیا بات مولٰی تا عمر لکھ دے آنا مقدر ، اللہ اکبر اللہ اکبر مانگی ہیں میں نے جتنی دعائیں، منظور ہوں گی، مقبول ہوں گی میزاب رحمت ہے میرے سر پر، اللہ اکبر اللہ اکبر حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں، اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو کہ لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر، اللہ اکبر اللہ اکبر یاد آگئیں جب اپنی خطائیں، اشکوں میں ڈھلنے لگیں التجائیں رویا غلافِ کعبہ پکڑ کر، اللہ اکبر اللہ اکبر بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو میرے مصطفٰی نے اے سنگِ اسود تیرا مقدر، اللہ اکبر اللہ اکبر دیکھا صفا اور مروہ بھی دیکھا، رب کے کرم کا جلوہ بھی دیکھا دیکھا وہاں اک سروں کا سمندر، اللہ اکبر اللہ اکبر مولٰی صبیح اور کیا چاہتا ہے، بس مغفرت کی عطا چاہتا ہے بخشش کے طالب پہ اپنا کرم کر، اللہ اکبر اللہ اکبر ​

فارسی نعت ترجمہ کے ساتھ کلام عبدالرحمن جامی

 نسیما جانب بطحا گزر کن ز احوالم محمد را خبر کن اے بادِ نسیم جب ترا شہرِ بطحا سے گزر ہو، میرے احوال (حالات ) سرکار کی خدمت میں بیان کرنا ببر ایں جان مشتاقم بہ آں جا فدائے روضہ خیر البشر کن میری جان یہ اشتیاق رکھتی ہے (مشتاق ہے ) کہ جاکر روضہ ِ خیر البشر فدا ہوجائے توئی سلطان عالم یا محمد! ز روئے لطف سوئے من نظر کن یا محمد (صل اللہ علیہ وسلم ) آپ جہان کے بادشاہ ہیں ، میری جانب بھی اک لطف و کرم کی نظر ہو مشرف گرچہ شد جامی ز لطفت خدایا ایں کرم بار دگر کن جامی کو گرچہ یہ شرف حاصل ہے کہ اس پر لطف ہوا، اے خدا یہ کرم بارِ دگر(بار بار یادوبارہ ) بھی ہو

سلام. ادیب راے پوری

 خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام جنّ و ملائک تیرے غلام سب سے سوا ہے تیرا مقام یٰسین و طہٰ تیرے ہی نام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام​ سب کو میسّر ہو یہ مقام پہنچیں مدینے بن کر غلام پڑھتے درود اور پڑھتے سلام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام عرشِ بریں تک چرچا تیرا شمس و قمر ہیں صدقہ تیرا اے ماہِ کامل حُسنِ تمام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام زلفوں کی خوشبو ہر سانس میں جنّت بداماں احساس میں آنکھوں میں آنسو ہونٹوں میں نام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام جود و سخا کا پرچم توہی زخمِ جہاں کا مرہم تو ہی مشکل کشائی تیرا ہی نام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام اے جانِ جاناں جانِ جہاں شاداں کہ تم ہو شاہِ شہاں نازاں کہ ہم ہیں ادنٰی غلام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام رب کی خوشی ہے منشا تیرا منشائے رب ہے تیری رضا تیرا سخن ہے رب کا کلام خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام روزِ ازل جو چمکا تھا نور محشر میں ہوگا اس کا ظہور اول سے آخر ا...

کلام ادیب راے پوری.

 عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار  ورنہ وُہ سیّدِ عالی نَسَبی، ہاں وُہی اُمّی لقَبی ، ہاشمی و مُطّلبی و عَرَبی و قَرشی و مَدَنی اور کہاں ہم سے گنہ گار  آرزُو یہ ہے کہ ہو قَلب مُعَطّر و مُطَہّرو مُنَوّر و مُجَلّٰی و مُصَفّٰی، دُرِ اَعلیٰ جو نظر آئیں کہیں جَلوۂ رُوئے شَہہِ اَبرار  جن کے قَدموں کی چَمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جِدھر سے وُہ گُذر جائے، وُہی راہ چمک جائے، دَمک جائے، مہک جائے ،بنے رَونق ِگُلزار  سُو نگھ لُوں خُوشبُوئے گَیسُوئے مُحَمَّدﷺ وہ سیاہ زُلف نہیں ، جس کے مقابل یہ بَنَفشَہ، یہ سیُوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گُلِ لالہ و چمپَا کا نکھار  جس کی نکہت پہ ہیں قربان گل و برگ و ثمن نافہِ آہوئے ختن بادِ چمن بوئے چمن نازِ چمن نورِ چمن رنگِ چمن سارا چمن زار  یہ تمنّا کہ سُنُوں میں بھی وہ آوازِ شَہہِ جِنّ و بَشَر، حَق کی خبر، خُوش تَر و شیرِیں زشکر، حسنِ فصاحت کا گُہر، نطق کرے ناز سخن پر  وُہ دِل آرام صدا، نامِ خدا، جس پہ فدا، غُنچَہ دہن، طُوطیِ صَد ر...

کلام پیر سید نصیرالدین نصیر گیلانی.

 مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے مرے آقا! کرنا حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا میں ہوں بےکس ، تیرا شیوہ ہے سہارا دینا میں ہوں بیمار ، تیرا کام ہے اچھا کرنا تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا تیرے صدقے ، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا جس نے ،جس رنگ میں چاہا مجھے رُسوا کرنا یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم! ساری امت کی شفاعت، تنِ تنہا کرنا کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر! فیصلہ میرا سپردِ شہِ بطحا کرنا آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا یہ صراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے تیری تعریف کرانا ،تجھے اُونچا کرنا تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا وہ درختوں کا تیری دید ...

کلام پروفیسر اقبال عظیم.

 فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں خود اُنھی کو پُکاریں گے ہم دُور سے ، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصدا بھٹک جائیں گے ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جائے گا سر جُھکانے کی فُرصت ملے گی کِسے ، خُود ہی پلکوں سے سجدے ٹپک جائیں گے نامِ آقا جہاں بھی لیا جائے گا ، ذکر اُن کا جہاں بھی کیا جائے گا نُور ہی نُور سینوں میں بھر جائے گا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے اے مدینے کے زائر خُدا کے لیے ، داستانِ سفر مُجھ کو یوں مت سُنا بات بڑھ جائے گی ، دل تڑپ جائے گا ، میرے محتاط آنسُو چھلک جائیں گے اُن کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر ، کس مُسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر ہم کو اقبال جب بھی اجازت ملی ، ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے

کلام عبدالستار نیازی

 سوچتا ہوں میں وہ گھڑی کیا عجب گھڑی ہوگی جب درِ نبی پر ہم سب کی حاضری ہوگی آرزو ہے سینے میں گھر بنے مدینے میں ہو کرم جوبندے پرتو بندہ پروری ہوگی کبریا کے جلووں کا کیا سماں بندھا ہوگا محفلِ نبی جس دم عرش پر سجی ہوگی بات کیا ہے بادِصبا اتنی کیوں معطر ہے سبز سبز گنبد کو چوم کرچلی ہوگی سو کھلیں گے اس کے لیے رحمتوں کے دروازے نعت مصطفی جس نے ایک بھی سنی ہو گی نام مصطفی کی قسم پر سکوں ہوں میں اب تک تم بھی نام لو ان کا گھر میں شانتی ہوگی دیکھ تو نیازی ذرا سو گیا کیا دیوانہ ان کی یاد میں شاید آنکھ لگ گئی ہوگی

کلام اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ

 عرشِ حق ہے مسندِ رِفعت رسول اللہ کی دیکھنی ہے حشر میں عزّت رسول اللہ کی قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نُور کے جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی کافروں پر تیغِ والا سے گِری برقِ غضب اَبر آسا چھا گئی ہیبت رسول اللہ کی لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو مِلا ان سے ملا بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی سُورج اُلٹے پاؤں پلٹے چاند اِشارے سے ہو چاک اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب وہابی دُور ہو ہم رسول اللہ کے جنّت رسول اللہ کی ذِکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے پھر کہے مردک کہ ہوں امّت رسول اللہ کی نجدی اُس نے تجھ کو مہلت دی کہ اس عالم میں ہے کافر و مرتَد پہ بھی رحمت رسول اللہ کی ہم بھکاری وہ کریم اُن کا خدا اُن سے فُزُوں اور نا کہنا نہیں عادت رسول اللہ کی اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا مِلا جان کی اِکسیر ہے اُلفت رسول اللہ کی ٹُوٹ جائیں گے گنہگاروں کے فوراً قید و بند حشر کو کھل جائے گی طاقت رسول اللہ کی یاربّ ...

فارسی نعت ترجمہ کے ساتھ جسے سن کردل باغ باغ ہوجائے.

 تنم فرسودہ جاں پارہ ، ز ہجراں ، یا رسول اللہ دِلم پژمردہ آوارہ ، زِ عصیاں ، یا رسول اللہ ( یا رسول اللہ آپ کی جدائی میں میرا جسم بے کار اور جاں پارہ پارہ ہو گئی ہے ۔ گناہوں کی وجہ سے دل نیم مردہ اور آورہ ہو گیا ہے ) چوں سوئے من گذر آری ، منِ مسکیں زِ ناداری فدائے نقشِ نعلینت ، کنم جاں ، یا رسول اللہ ( یا رسول اللہ اگر کبھی آپ میرے جانب قدم رنجہ فرمائیں تو میں غریب و ناتواں ۔ آپ کی جوتیوں کے نشان پر جان قربان کر دوں۔ ) ز جام حب تو مستم ، با زنجیر تو دل بستم نمی گویم کہ من بستم سخن دا، یا رسول اللہ ( آپ کی محبت کا جام پی چکا ہوں،آپ کی عشق کی زنجیر میں بندھا ہوں ۔ پھربھی میں نہیں کہتا کہ عشق کی زبان سےشناسا ہوں ، یا رسول اللہ ) زِ کردہ خویش حیرانم ، سیہ شُد روزِ عصیانم پشیمانم، پشیمانم ، پشیماں ، یا رسول اللہ ( میں اپنے کیے پر حیران ہوں اور گناہوں سے سیاہ ہو چکا ہوں ۔ پشیمانی اور شرمند گی سے پانی پانی ہو رہا ہوں ،یا رسول اللہ ) چوں بازوئے شفاعت را ، کُشائی بر گنہ گاراں مکُن محروم جامی را ، درا آں ، یا رسول اللہ ( روز محشر جب آپ شفاعت کا بازو گناہ گاروں کے لیے کھولیں گے ۔ یا رسول اللہ...

نعت شریف.

 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے  یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے . جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟ تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا وُہ ہے عیش و عشرت کا کؤی محل بھی؟ جہاں ساتھ میں کھڑی ہو اجل بھی بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی یہ دنیأے فانی ہے محبوب تجھ کو ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو نہیں عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو سمجھ لینا چاہیے اب خوب تجھ کو بڑھاپے میں پا کے پیامِ قضا بھی نہ چونکا نہ چیت...
Image